گرمئ عشق کے بغیر لطف حیات رائیگاں
گرمئ عشق کے بغیر لطف حیات رائیگاں
عشق ہے زندگی کا روپ عشق سے زندگی جواں
ہائے وہ چند ساعتیں گزریں جو تیرے قرب میں
رشک سے دیکھتی رہی جن کو حیات جاوداں
اف ری منازل بلند تیرے حریم ناز کی
پائے طلب کو کتنے طے کرنے پڑے ہیں آسماں
برق کی دسترس سے دور عصر نو کے اے طیور
اور بلند آشیاں اور بلند آشیاں
گرم حصول جوئے شیر ہاں یوں ہی مرد تیشہ گیر
تیشہ زنی ہے دہر میں اصل حیات کامراں
محتسب شراب تو بزم جہاں میں ہیں بہت
یہ بھی کہو کہ ہے کوئی محتسب غم نہاں
جذبۂ ہمت اے نہالؔ جب ہو مرا شریک حال
میرے لبوں پہ آئے کیوں شکوۂ گردش زماں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |