گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو
گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو
لیکن اپنے کام میں یکتا ہے تو
عاشق و معشوق کرتا ہے جدا
اے فلک یہ کام بھی کرتا ہے تو
لاکھ پردے گر ہوں تیرے حسن پر
کوئی پردوں میں چھپا رہتا ہے تو
حال دل کہنے لگوں ہوں میں تو شوخ
مجھ سے یوں کہتا ہے "کیا بکتا ہے تو"
پاس بیٹھا اس کے میں رویا کیا
یوں نہ پوچھا مجھ سے "کیوں روتا ہے تو"
رات دن تو ہے مری آغوش میں
میں ترا ساحل مرا دریا ہے تو
بزم میں اس تند خو کی دوڑ دوڑ
کام کیا؟ کیوں؟ کس لیے جاتا ہے تو
واں نہیں مطلق ترا مذکور بھی
مصحفیؔ کس بات پر بھولا ہے تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |