گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اس منہ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراش جبیں جراحت ہے
ناخن شوق کا ہنر دیکھو
تھی ہمیں آرزو لب خنداں
سو عوض اس کے چشم تر دیکھو
رنگ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میرؔ
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |