گرچہ گل کی سیج ہو تس پر بھی اڑ جاتی ہے نیند
گرچہ گل کی سیج ہو تس پر بھی اڑ جاتی ہے نیند
سر رکھوں قدموں پہ جب تیرے مجھے آتی ہے نیند
دیکھ سکتا ہی نہیں آنکھوں سے ٹک آنکھیں ملا
منتظر سے مثل نرگس تیرے شرماتی ہے نیند
جب سے یہ مژگاں ہوئے در پر ترے جاروب کش
روبرو تب سے مری آنکھوں کے ٹل جاتی ہے نیند
دھیان میں گل رو کے چین آتا نہیں افسانہ گر
لے صبا سے گاہ بوئے یار بہلاتی ہے نیند
اشک تو اتنے بہے چنداؔ کہ چشم خلق سے
قرۃالعین علیؓ کے غم میں بہہ جاتی ہے نیند
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |