گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا

گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
by قربان علی سالک بیگ

گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
وہ دل میں مرے آبلہ ہو گیا

سمجھتے ہیں وہ فرض اس کی شکست
مرا دل بھی عہد وفا ہو گیا

کہوں کیا نہ دیکھیں جو میری طرف
تغافل شریک حیا ہو گیا

وہ کرتے ہیں سن کر ستم اور بھی
مرا نالہ شکر جفا ہو گیا

قیامت ہوئی اس کی رفتار سے
یہ ہنگامہ ہنگامہ زا ہو گیا

بد و نیک کا ان پہ کیا اعتراض
جو چاہا کیا جو کیا ہو گیا

شب وصل ہونے کی ہے یہ دلیل
شب ہجر سے دن سوا ہو گیا

اثر سب کھچا اس کی گفتار میں
مرا نالہ بھی نارسا ہو گیا

وہ صورت ہے دل کش کہ اس ظلم پر
زمانہ ترا مبتلا ہو گیا

ملا دے جگر کو بھی دل میں خدا
کہ اب شوق حد سے سوا ہو گیا

غم و رنج و حرمان و اندوہ کو
مرا سینہ ملک بقا ہو گیا

محبت میں الزام کیا دل کو دوں
یہ گمراہ تھا مجھ کو کیا ہو گیا

ہجوم بلا ہاے ہجراں نہ پوچھ
تجھے کیا جو کچھ ہو گیا ہو گیا

انا العشق کہنا نہ آیا مگر
کہ منصور انا الحق سرا ہو گیا

یہ تقویٰ جوانی میں سالکؔ مگر
برے وقت میں پارسا ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse