گریباں چاک ہیں گل بوستاں میں
گریباں چاک ہیں گل بوستاں میں
اثر کتنا ہے بلبل کی فغاں میں
قفس صیاد کا خالی پڑا ہے
نہ ہوں بے چین کیوں کر آشیاں میں
دعائے وصل جا اب تو اثر تک
کئے نالوں نے روزن آسماں میں
سنے گر طالع خفتہ کا قصہ
تو نیند آ جائے چشم پاسباں میں
زلیخا کی مچی جاتی ہیں آنکھیں
کہیں یوسف نہ ہو اس کارواں میں
تمام اسباب دنیاوی کے بدلے
ہے اک بے رونقی اپنی دکاں میں
سنا حال دل مجروحؔ شب کو
کوئی حسرت سی حسرت تھی بیاں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |