گریز
یہ جا کر کوئی بزم خوباں میں کہہ دو
کہ اب درخور بزم خوباں نہیں میں
مبارک تمہیں قصر و ایواں تمہارے
وہ دلدادۂ قصر و ایواں نہیں میں
جوانی بھی سرکش محبت بھی سرکش
وہ زندانی زلف پیچاں نہیں میں
تڑپ میری فطرت تڑپتا ہوں لیکن
وہ زخمیٔ پیکان مژگاں نہیں میں
دھڑکتا ہے دل اب بھی راتوں کو لیکن
وہ نوحہ گر درد ہجراں نہیں میں
بہ ایں تشنہ کامی بہ ایں تلخ کامی
رہین لب شکر افشاں نہیں میں
شراب و شبستاں کا مارا ہوں لیکن
وہ غرق شراب شبستاں نہیں میں
قسم نطق کی شعلہ افشانیوں کی
کہ شاعر تو ہوں اب غزل خواں نہیں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |