گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ
گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ
ڈوبتی ہے بھنور میں جا کر ناؤ
نہ گلی اپنی واں کبھی کھچڑی
نت پکاتے رہے خیالی پلاؤ
دل ہے اے نالہ جوں کباب ورق
آنچ کم دے یہ کھا نہ جائے تاؤ
بوسہ لیتے میں کاٹ کھاتے ہو
کیا تمہارا برا پڑا ہے سبھاؤ
جی پہ یاں بن رہی ہے یہ تو کہو
آج کیدھر چلے ہو کر کے بناؤ
کیوں کے رکھوں قدم گلی میں تری
واں تو پڑتا نہیں ہے اپنا ہواؤ
آتش معدہ کو نہیں سیری
جوں جہنم کرے ہے لاؤ ہی لاؤ
دل جو میں گم کیا تو تم کو کیا
یارو اس بات کا کرو نہ چواؤ
تھی شب وصل پر خیال کے ساتھ
ہم نے دل سے نکالے کیا کیا چاؤ
دہ دل ہے تعلقے میں ترے
خواہ اوجڑ کر اس کو خواہ بساؤ
مرہم لطف منہ نہ موڑیو تو
ابھی آلے ہیں سب جگر کے گھاؤ
یہ زمیں بھی ہے طرفہ معنی خیز
مصحفیؔ اک غزل تو اور سناؤ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |