گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے
گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے
آنسو بھی تلا ہوا کھڑا ہے
حیران ہے کس کا جو سمندر
مدت سے رکا ہوا کھڑا ہے
ہے موسم گل چمن میں ہر نخل
پھولوں سے لدا ہوا کھڑا ہے
شمشاد برابر اس کے قد کے
دہشت سے بچا ہوا کھڑا ہے
ہے چاک کسی کا جیب و داماں
کوئی خستہ لٹا ہوا کھڑا ہے
تو آ کے تو دیکھ در پہ تیرے
کیا سانگ بنا ہوا کھڑا ہے
خلوت ہو کبھو تو یوں کہے وہ
کوئی در سے لگا ہوا کھڑا ہے
میں خیر ہے گر کہوں تو بولے
وہ دیکھ چھپا ہوا کھڑا ہے
خونیں کفن شہید الفت
دولہا سا بنا ہوا کھڑا ہے
تیرا ہی ہے انتظار اس کو
ناقہ تو کسا ہوا کھڑا ہے
اے جان نکل کہ مصحفیؔ کا
اسباب لدا ہوا کھڑا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |