گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا

گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا
by شاد لکھنوی

گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا
پاؤں رکھنے کا ٹھکانا تو کہیں مل جاتا

مر بھی جاتا تو نہ میرا مرض سل جاتا
غم اصنام کی چھاتی پہ دھرے سل جاتا

خط عارض جو ترشنے سے مٹے ہے یہ محال
چھیلنے سے نہیں قسمت کا لکھا چھل جاتا

چھوٹتا عید کے دن بھی نہ گرفتاروں کو
صورت طوق گلو گیر گلے مل جاتا

جب چمکتی ہے تری تیغ تبسم اے گل
دہن زخم ہے غنچے کی طرح کھل جاتا

دل میں ہوتا نہ مرے دخل بلاے کاکل
سایہ رہتا نہ کبھی گریہ مکاں کل جاتا

رعشہ اندام ہوں یہ خوف خدا سے اے شادؔ
کوئی مجرم ہو کلیجہ ہے مرا ہل جاتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse