گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں
گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں
ان صورتوں کو صرف کرے خاک و خشت میں
رکھتا ہے سوز عشق سے دوزخ میں روز و شب
لے جائے گا یہ سوختہ دل کیا بہشت میں
آسودہ کیونکے ہوں میں کہ مانند گرد باد
آوارگی تمام ہے میری سرشت میں
کب تک خراب سعی طواف حرم رہوں
دل کو اٹھا کے بیٹھ رہوں گا کنشت میں
ماتم کے ہوں زمین پہ خرمن تو کیا عجب
ہوتا ہے نیل چرخ کی اس سبز کشت میں
سرمست ہم ہیں آنکھوں کے دیکھے سے یار کی
کب یہ نشہ ہے دختر رز تجھ پلشت میں
رندوں کے تئیں ہمیشہ ملامت کرے ہے تو
آجائیو نہ شیخ کہیں ہشت بہشت میں
نامے کو چاک کر کے کرے نامہ بر کو قتل
کیا یہ لکھا تھا میرؔ مری سرنوشت میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |