گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
رہ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں
ہے اب کام دل جس پہ موقوف تو
وہ نالہ کہ جس میں اثر کچھ نہیں
ہوا مائل اس سرو کا دل مرا
بجز جور جس سے ثمر کچھ نہیں
نہ کر اپنے محووں کا ہرگز سراغ
گئے گزرے بس اب خبر کچھ نہیں
تری ہو چکی خشک مژگاں کی سب
لہو اب جگر میں مگر کچھ نہیں
حیا سے نہیں پشت پا پر وہ چشم
مرا حال مد نظر کچھ نہیں
کروں کیونکے انکار عشق آہ میں
یہ رونا بھلا کیا ہے گر کچھ نہیں
کمر اس کی رشک رگ جاں ہے میرؔ
غرض اس سے باریک تر کچھ نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |