گزر گیا انتظار حد سے یہ وعدۂ ناتمام کب تک
گزر گیا انتظار حد سے یہ وعدۂ ناتمام کب تک
نہ مرنے دے گی مجھے ستم گر تری تمنائے خام کب تک
اجل مرا اتنا کام کر دے کہ کام میرا تمام کر دے
رہے کوئی زندگی کے ہاتھوں جہاں میں رسوائے عام کب تک
وہ آئے یا وعدے پر نہ آئے بلا سے قسمت جو کچھ دکھا دے
مگر ہمیں دیکھنا تو یہ ہے کہ آج ہوتی ہے شام کب تک
یہ بحث و تکرار چھوڑ دے آ یہ زہد کا عہد توڑ دے
رہے گی اے مدعی حرمت شراب دنیا حرام کب تک
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |