گزک کی اس قدر اے مست تجھ کو کیا شتابی ہے
گزک کی اس قدر اے مست تجھ کو کیا شتابی ہے
ہمارا بھی دل صد لخت دوکان کبابی ہے
نہیں جز قرص مہر و ماہ کچھ گردوں کے مطبخ میں
سو وہ بھی ایک نان سوختہ اور ایک آبی ہے
چھڑا مشاطہ زلف یار کو شانے کے نیچے سے
کہ اس کی کشمکش سے دل کو میرے پیچ و تابی ہے
بدن پر کچھ مرے ظاہر نہیں اور دل میں سوزش ہے
خدا جانے یہ کس نے راکھ اندر آگ دابی ہے
شکست آتی ہے اس میں موج مے سے دیکھیو ساقی
بچانا ٹھیس سے شیشہ مرے دل کا حبابی ہے
رہے ہے کام ہم کو روز و شب قرآن و مسجد سے
کہ ابرو اس کی ہے محراب اور چہرا کتابی ہے
کسو کے ابلق ایام چڑھنے کا نہیں راضی
ازل سے حاتمؔ اس توسن میں عیب بدر کابی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |