گلا نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
گلا نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
جگر پہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا
سمند ناز نے اس کے جہاں کیا پامال
وہی ہے اب بھی اسے شوق ترک تازی کا
ستم ہیں قہر ہیں لونڈے شراب خانے کے
اتار لیتے ہیں عمامہ ہر نمازی کا
الٹ پلٹ مری آہ سحر کی کیا ہے کم
اگر خیال تمہیں ہووے نیزہ بازی کا
بتاؤ ہم سے کوئی آن تم سے کیا بگڑی
نہیں ہے تم کو سلیقہ زمانہ سازی کا
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
چلو ہو راہ موافق کہے مخالف کے
طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا
کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ
دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا
بسان خاک ہو پامال راہ خلق اے میرؔ
رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |