گلبانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا

گلبانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا
by حاتم علی مہر
303357گلبانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھاحاتم علی مہر

گلبانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا

کوچہ میں اس کے نالہ میرا بے کسانہ تھا
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا

جب کوئی زلف میں بھی نہ کچھ دخل شانہ تھا
سودائی تھا مزاج میرا عاشقانہ تھا

بلبل کو اپنا نالہ موزوں ترانہ تھا
ہر گل بھی مائل غزل عاشقانہ تھا

نالوں میں بلبلوں کی جو رنگ ترانہ تھا
فصل بہار تھی وہ گلوں کا زمانہ تھا

الجھا ہوا جو گیسوئے جاناں میں شانہ تھا
سنبل میں ایک اور نیا شاخ شانہ تھا

سودائیوں کو تھی تری الجھن بلا کی رات
زلف دوتا کا طول و طویل اک فسانہ تھا

جاتے ہیں آپ اور برا حال ہے مرا
آتی جو اب تو موت کو اچھا بہانہ تھا

تیر نگاہ کی جو کمان تھی جڑی ہوئی
اپنا جگر کبھی تو کبھی دل نشانہ تھا

دریاۓ مے کی گھات اتاریں گے ہم انہیں
شیریں کا جوئے شیر کا اگلا زمانہ تھا

اپنی شب وصال کا اللہ رے اہتمام
شبنم کی شبنمی تھی فلک شامیانہ تھا

کملی کو اپنا تان کے سویا فقیر مست
کیا پشم تھا امیروں کا جو شامیانہ تھا

کعبہ کا احترام خدا ساز ہو گیا
اس وقت میں کہاں یہ ترا آستانہ تھا

دیر و حرم میں کیا تھا اگر ہم سے پوچھئے
شایان سجدۂ یار ترا آستانہ تھا

کنج قفس میں شکوۂ صیاد کیا کروں
اس کا قصور کیا ہے میرا آب و دانہ تھا

روزی ہوا ہے دانۂ زنجیر و آب تیغ
قسمت کا عاشقوں کی یہ ہے آب و دانہ تھا

لوہے کے تھے چنے ترے چھینٹے غضب کے تھی
صیاد خوب اپنے لیے آب و دانہ تھا

ہو مجھ سا عندلیب خوش الحان اسیر دام
صیاد کا نصیب میرا آب و دانہ تھا

گندم جو خلد میں تو یہاں تھی شراب ناب
اک میں تھا دو جگہ پہ مرا آب و دانہ تھا

رند شراب خار رہا میں تمام عمر
انگور کا نصیب مجھے آب و دانہ تھا

میں وہ صدف ہوں جس کے ہے دریا دلی کا شور
جو ہنس چگ رہا ہے مرا آب و دانہ تھا

بلبل کے آگے اپنی بڑی بات رہ گئی
غنچہ سے تو کہیں تیرا چھوٹا دیا نہ ہاتھ

رنگیں خیالیاں دم فکر سخن نہ تھیں
زیب تن عروس لباس شہانہ تھا

مسی کبھی ملی کبھی گیسو بنا کئے
شب بھر شب وصال میں حیلہ بہانہ تھا

تجھ سے سوا تو اے صنم اللہ کا ہی نام
اچھا تھا ہاں حسین تھا یوسف برا نہ تھا

یاران رفتگاں کا نشاں خاک ڈھونڈیئے
ریگ رواں کا قافلہ تھا جو روانہ تھا

منہ دیکھی ان کے سامنے کہتے نہیں ہیں ہم
اپنی زبان پہ وصف دہن غائبانہ تھا

باد بہار جا کے اوڑا لائی باغ میں
کیا گنج شائیگان زر گل کا خزانہ تھا

اپنا سمند عمر جما جم کے اڑ گیا
شاید ہمارا راز نفس تازیانہ تھا

راز نہاں کسی پہ نہ اپنا عیاں ہوا
نا آشنائے گوش ہمارا فسانہ تھا

پہچانئے تو خاک کے پتلوں کی خاک کو
بیگانہ کون کون سا ان میں یگانہ تھا

اس شعلہ رو کی تھی جو دل صاف میں جگہ
آتش کدہ یہ مہرؔ کا آئینہ خانہ تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.