گلے لگائیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں

گلے لگائیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں
by رند لکھنوی

گلے لگائیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں
جو بات مانو تو منت ہزار بار کریں

یہ ہاتھ کیسے ہیں بیکار کچھ تو کار کریں
بہار آئی گریبان تار تار کریں

کہاں سے لائیں اب اس کو جو ہمکنار کریں
تسلی کیا تری او جان بے قرار کریں

وہ ربط تم سے بڑھائیں وہ تم کو یار کریں
ہزار طرح کے جو جبر اختیار کریں

گرائے سیل عناصر کی چار دیواری
خراب خانۂ تن چشم اشکبار کریں

تمہارے در سے نہ مایوس جائیں حاجت مند
قبول ہووے جو توبہ گناہ گار کریں

کفن بھی ہو گیا میلا دھرے دھرے اے موت
تمام عمر ہوئی کب تک انتظار کریں

برنگ غنچہ زباں ہے دہاں میں زیر زباں
تمہارے قول کا کیا خاک اعتبار کریں

گدا ترے در دولت کے ہیں یہ مستغنی
جو سلطنت بھی ملے تو نہ اختیار کریں

غرور حسن سے ہرگز سنے گا ایک نہ گل
چمن میں نالے اگر بلبلیں ہزار کریں

سنائے رکھتا ہوں سب کو مری وصیت ہے
کہ تا اسی پہ عمل میرے غم گسار کریں

چراغ زیست جب اس ننگ دودماں کا ہو گل
عزیز شمع نہ روشن سر مزار کریں

ترے سوا ہے کریم اور رحیم کس کی ذات
نجات کس سے طلب ہم گناہ گار کریں

بجائے سرمہ لگائیں غبار کوچۂ یار
یہی علاج ترا چشم اشکبار کریں

ستم شعار جفا پیشہ بے مروت ہے
سراہیے جگر ان کے جو تجھ کو پیار کریں

بڑھا کے لکھیں نہ شاعر حدیث زلف رسا
ہوا ہے طول مناسب ہے اختصار کریں

در کریم سے آتی ہے متصل یہ صدا
وہ کیوں نہ پائے جسے ہم امیدوار کریں

یہ بت اٹھائیں جو قرآں بھی کعبے میں اے رندؔ
خدا سے ہم تو ہوں منکر جو اعتبار کریں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse