گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں

گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں
اور جو ہم سایے ہیں آواز میں مر جاتے ہیں

کبک و طاؤس کو چلتا ہے تو ٹھہرا کے تو ہم
تیری رفتار کے انداز میں مر جاتے ہیں

مژدہ اے یاس کہ یاں کنج قفس کے قیدی
یک بیک موسم پرواز میں مر جاتے ہیں

ہیں ترے رمز تبسم کے ادا فہم جو شخص
جنبش لعل فسوں ساز میں مر جاتے ہیں

لب ہلانے نہیں پاتا وہ کہ ہم نادیدہ
بس وہیں بات کے آغاز میں مر جاتے ہیں

توسن ناز کو پھینکے ہے وہ جس دم سرپٹ
لوگ کیا کیا نہ تگ و تاز میں مر جاتے ہیں

مصحفیؔ دشت بلا کا سفر آسان ہے کیا
سیکڑوں بصرہ و شیراز میں مر جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse