گھٹا اٹھی ہے کالی اور کالی ہوتی جاتی ہے
گھٹا اٹھی ہے کالی اور کالی ہوتی جاتی ہے
صراحی جو بھری جاتی ہے خالی ہوتی جاتی ہے
جفا ہر چند دنیا سے نرالی ہوتی جاتی ہے
گلا کس منہ سے کیجے ہونے والی ہوتی جاتی ہے
وداع جاں ہے تن سے دل سے ارمانوں کی رخصت ہے
بھری محفل ہماری آج خالی ہوتی جاتی ہے
مبارکؔ میں تصدق اپنے اس مشق تصور کے
مجسم اب وہ تصویر خیالی ہوتی جاتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |