ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
اک نظر دل سے ادھر دیکھ لو گر دیکھتے ہو
ہے دم باز پسیں دیکھ لو گر دیکھتے ہو
آئینہ منہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
ناتوانی کا مری مجھ سے نہ پوچھو احوال
ہو مجھے دیکھتے یا اپنی کمر دیکھتے ہو
پر پروانہ پڑے ہیں شجر شمع کے گرد
برگ ریزی محبت کا ثمر دیکھتے ہو
بید مجنوں کو ہو جب دیکھتے اے اہل نظر
کسی مجنوں کو بھی آشفتہ بسر دیکھتے ہو
شوق دیدار مری نعش پہ آ کر بولا
کس کی ہو دیکھتے راہ اور کدھر دیکھتے ہو
لذت ناوک غم ذوقؔ سے ہو پوچھتے کیا
لب پڑے چاٹتے ہیں زخم جگر دیکھتے ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |