ہاتھ میں لے کے نہ خنجر بیٹھیے

ہاتھ میں لے کے نہ خنجر بیٹھیے
by قربان علی سالک بیگ

ہاتھ میں لے کے نہ خنجر بیٹھیے
قتل کرنا ہے تو بس کر بیٹھیے

بار در تک بھی نہیں اور شوق یہ
بزم میں ان کے برابر بیٹھیے

اٹھیے اے شور فغاں پر اس طرح
نقش کی مانند دل پر بیٹھیے

ہو چکی تعظیم دشمن کی کہیں
اے زیارت گاہ محشر بیٹھیے

ضعف طاری ہو تو کیوں کر لوٹیے
جان مضطر ہو تو کیوں کر بیٹھیے

یہ کوئی دفتر نہیں سن لیجئے
حال دل کہتا ہوں دم بھر بیٹھیے

حضرت دل کوچۂ قاتل کا عزم
روئیے گا سر پکڑ کر بیٹھیے

روئے جنگل میں بہت اب جی میں ہے
گھر بٹھانے کے لئے گھر بیٹھیے

کھینچ مارا ایک پتھر بات میں
اس صنم کے پاس پتھر بیٹھیے

خاک چھانی عشق میں سالکؔ بہت
پیر و مرشد کوئی دن گھر بیٹھیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse