ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں

ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں
by فائز دہلوی

ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں
مجلس میں شمع رو کی پروانہ ہو رہا ہوں

مجھ کو ملامت خلق خاطر میں ناہیں ہرگز
زلفاں کی فکر میں میں دیوانہ ہو رہا ہوں

ساقی شراب و ساغر اب چاہتا نہیں ہوں
اس کے خیال سوں میں مستانہ ہو رہا ہوں

اس کے خیال سوں میں تنہا نشیں ہوں دائم
وحشی سا میں سبن سوں بیگانہ ہو رہا ہوں

دیکھ اس کی لٹ کا پھاندا بھولا ہوں آب و دانہ
فائزؔ اسیر اس کا بے دانہ ہو رہا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse