ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا

ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
by عبدالرحمان احسان دہلوی

ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
چلن یہ چلتے ہو عاشق کی جان جانے کا

قسم قدم کی ترے جب تلک ہے دم میں دم
میں پاؤں پر سے ترے سر نہیں اٹھانے کا

ہماری جان پہ گرتی ہے برق غم ظالم
تجھے تو سہل سا ہے شغل مسکرانے کا

قسم خدا کی میں کچھ کھا کے سو رہوں گا صنم
جو ساتھ اپنے نہیں مجھ کو تو سلانے کا

نصیب اس کے شراب بہشت ہووے مدام
ہوا ہے جو کوئی موجد شراب خانے کا

بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا

ہماری چھاتی پہ پھرتا ہے سانپ یاں احساںؔ
وہاں ہے شغل اسے زلف کے بنانے کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse