ہر دم طرف ہے ویسے مزاج کرخت کا
ہر دم طرف ہے ویسے مزاج کرخت کا
ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت کا
سبزان ان رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی
اب دیکھیے تو واں نہیں سایہ درخت کا
جوں برگ ہائے لالہ پریشان ہو گیا
مذکور کیا ہے اب جگر لخت لخت کا
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
خاک سیہ سے میں جو برابر ہوا ہوں میرؔ
سایہ پڑا ہے مجھ پہ کسو تیرہ بخت کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |