ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
کھیتوں کا مزہ لینا جنگل کو نکل جانا
جی کیوں نہ بھلا ان کی پھر بھوں پہ لگے اپنا
اک وسعت مشرب کے ہے ساتھ یہ ویرانا
سطح پہ زمیں کی ہے تاحد نظر سبزہ
کیا سیر کا عالم ہے اپنا ہے نہ بیگانا
ہم عشق حقیقی کے یہ رنگ سمجھتے ہیں
نے لیلیٰ نہ مجنوں ہے نے شمع نہ پروانا
جس حسن کے جلوے ہیں عارف کی نگاہوں میں
وہ حسن بناوے ہے کعبے کو صنم خانا
دیوانۂ شہری تو دیوار کا سایہ لے
سائے میں مغیلاں کے بیٹھے گا یہ دیوانا
غربت کے بیاباں میں ہے مصحفیؔ آوارا
اے خضر خجستہ پے ٹک راہ تو بتلانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |