ہر طرف مجمع عاشقاں ہے

ہر طرف مجمع عاشقاں ہے
by امداد علی بحر

ہر طرف مجمع عاشقاں ہے
تیرے دم کا یہ سارا سماں ہے

اتنا مغرور کیوں باغباں ہے
یہ چمن چار دن میں خزاں ہے

عشق میں بے خبر ہو گیا ہوں
کس سے پوچھوں مرا دل کہاں ہے

کچھ نہیں سوجھتی سیر گلشن
میری آنکھوں سے وہ گل نہاں ہے

دھیان آٹھوں پہر ہے اسی کا
میں یہاں ہوں مرا دل وہاں ہے

سینے پر رکھ کے سوتا ہوں اس کو
اس کی تصویر آرام جاں ہے

آنسو بہنے لگے دیکھتے ہی
زلف محبوب ہے یا دھواں ہے

جان پروانہ ہے اس پری پر
شمع سوزاں ہر اک استخواں ہے

بے مروت ہے وہ بے وفا ہے
ساری محنت مری رائیگاں ہے

کیا تڑپتے گزرتے ہی اپنے
درد دل میں ہے لب پر فغاں ہے

ہجر میں کیوں نہیں موت آتی
ہائے کیا داغ دل مرض جاں ہے

ڈھونڈھتا ہوں میں یوسف کو اپنے
خاک میرے پس کارواں ہے

جام مل ہاتھ میں وہ بغل میں
بحرؔ اپنی یہ قسمت کہاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse