ہر طرف ہے اس سے میرے دل کے لگ جانے میں دھوم
ہر طرف ہے اس سے میرے دل کے لگ جانے میں دھوم
بلبل و گل میں ہے چہ چہ شمع و پروانے میں دھوم
فتنہ گر ہے ناز و عشوہ اس کی چشم شوخ میں
جوں مچاویں پی کے مے بدمست مے خانے میں دھوم
یاد میں اپنی ہے شاید وہ فرامش کار بھی
دل کرے ہے مجھ سے اس کی یاد دلوانے میں دھوم
جس طرح باد خزاں دیدہ میں آتی ہے بہار
شہر میں ہوتی ہے اس کے میرے گھر آنے میں دھوم
نوبت اوروں کی تو اے ساقی سبو پرداز ہے
کیا مچائی ہے ہمارے ایک پیمانے میں دھوم
جوں بلندی سے گرے ہے خاک پر کوئی ضعیف
ہے مری اس شوخ کی نظروں سے گر جانے میں دھوم
دیکھ تو لے سیر ہو کر تجھ کو یہ خانہ خراب
آتے ہی کیا ہے تری اتنی بھی گھر جانے میں دھوم
برہمن ہونے کو آتا ہے نیا شیخ آج کون
ہو رہی ہے ہر طرف حسرتؔ صنم خانے میں دھوم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |