ہر چند بہار و باغ ہے یہ

ہر چند بہار و باغ ہے یہ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ہر چند بہار و باغ ہے یہ
پر کس کو دل و دماغ ہے یہ

ہے بوند عرق کی زلف کے بیچ
یا گوہر شب چراغ ہے یہ

کیا لالے کو نسبت اپنے دل سے
یعنی کہ تمام داغ ہے یہ

در گزرے ہم ایسی زندگی سے
دنیا میں اگر فراغ ہے یہ

پھر اتنی درنگ کیا ہے ساقی
مے ہے یہ اور ایاغ ہے یہ

ایسا گیا مصحفیؔ جہاں سے
یارو مرے دل پہ داغ ہے یہ

جو پھر نہ کہا کسو نے اتنا
اس گم شدہ کا سراغ ہے یہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse