ہر چند کہ ہو مریض محتاط
ہر چند کہ ہو مریض محتاط
کیا کر سکے با فساد اخلاط
ادریس کی سالہا رہی ہے
کوچے میں ترے دکان خیاط
رخ پر ترے دیکھ سبزۂ خط
حیران ہیں سب جہاں کے خطاط
جتنی مرے دل میں ہے تیری چاہ
کم ہوگی نہ اس سے نیم قیراط
خوں سے ترے بسملوں کے دیکھی
کوچے میں ترے بچھی سقرلاط
قد اس کا نہیں اگرچہ کوتہ
ہے جسم کی لاغری بہ افراط
اے یارو نہ مصحفیؔ کو کوئی
سمجھو نہ کم از رشید وطواط
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |