ہر گھڑی مت روٹھ اس سے پھیر پل میں مل نہ جا
ہر گھڑی مت روٹھ اس سے پھیر پل میں مل نہ جا
گر بھلا مانس ہے اس کوچہ میں تو اے دل نہ جا
اول عشق ان بتوں کا لطف ہے دام فریب
اس کی مہر و دلبری پر اے دل مائل نہ جا
تیغ کیں سے خاک و خوں میں کر لیا ہائے مجھے
رقص بسمل کا تماشا دیکھ اے قاتل نہ جا
ہم سری کا اس قد موزوں سے تو دعویٰ نہ کر
اپنی حد سے باہر اے شمشاد پادر گل نہ جا
عشق کے کو میں کہ ہے جائے ملامت بے خبر
آنا پھر واں سے سلامت ہے بہت مشکل نہ جا
زاہدا رندوں کی گستاخی کو خاطر میں نہ لا
ہم سے دیوانوں کی باتوں پر تو اے عاقل نہ جا
ہاتھ ملتا ہی رہا حسرتؔ دل اس کو دے کے حیف
ہاتھ سے ایسی طرح یارب کسی کا دل نہ جا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |