ہزاروں راز نہاں ہیں دہن کے پردے میں
ہزاروں راز نہاں ہیں دہن کے پردے میں
کروڑوں نکتہ ہیں اک اک سخن کے پردے میں
نہاں ہے شاہد مطلب سخن کے پردے میں
زبان بول رہی ہے دہن کے پردے میں
بسا ہے عطر محبت سے جامۂ ہستی
چھپا ہے کون گل اس پیرہن کے پردے میں
نکال لایا انہیں شوق خود نمائی کا
وہ ایسی شان سے بیٹھے تھے بن کے پردے میں
غضب کا پردہ نشیں ہے وہ شوخ ہرجائی
ہر انجمن میں ہے ہر انجمن کے پردے میں
کھلا سبب ہمیں لیلیٰ کی جامہ زیبی کا
کہ روح قیس ہے اس پیرہن کے پردے میں
دردن پہ جن کے تھے زربفت کے پڑے پردے
اس اس مکاں کے مکیں ہیں کفن کے پردے میں
جو دیکھا اہل بصیرت نے دونوں کو تو کہا
حضور ہی ہیں حسین و حسن کے پردے میں
نجات اہل گناہ کو کہیں نہیں اکبرؔ
عبث چھپا ہے تو جا کر کفن کے پردے میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |