ہزاروں کی جان لے چکا ہے یہ چہرہ زیر نقاب ہو کر
ہزاروں کی جان لے چکا ہے یہ چہرہ زیر نقاب ہو کر
مگر قیامت کرو گے برپا جو نکلو گے بے حجاب ہو کر
شناخت اوس کی ہو سہل کیوں کر کہ جب نہ تب بھیس اک نیا ہو
وہ دن کو خورشید ہو کے نکلے تو رات کو ماہتاب ہو کر
میں دل سے اس شیخ کا ہوں قائل کہ میکدے میں پڑھے تہجد
لگائے مسجد میں نعرے ہو حق کے محو دور شراب ہو کر
فراق میں اس قدر تردد ابھی تمہیں کچھ خبر نہیں ہے
بڑھے گی کچھ اور بے قراری وصال میں کامیاب ہو کر
نہ کر تو اتنی مذمت اس کی بہشت کی چیز ہے یہ واعظ
یہ بلکہ ہے جوش بحر رحمت اگرچہ آیا شراب ہو کر
وہ تھا بدن یا کوئی گل تر پھر اوس کی خوشبو وہ روح پرور
جدھر سے گزرے بسا وہ رستہ بہا پسینہ گلاب ہو کر
جناب ناسخؔ کی یہ ہدایت ہے یاد رکھنا تم اس کو آصیؔ
غزل میں ایسے ہوں شعر جن میں کمی نہ ہو انتخاب ہو کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |