ہزار شرم کرو وصل میں ہزار لحاظ

ہزار شرم کرو وصل میں ہزار لحاظ  (1914) 
by پروین ام مشتاق

ہزار شرم کرو وصل میں ہزار لحاظ
نہ نبھنے دے گا دل زار و بے قرار لحاظ

نہ گد گداؤ مجھے میں بھی تم کو چھیڑوں گا
میں کر چکا ہوں تمہارا ہزار بار لحاظ

نقاب اٹھنے کی جرأت کہیں نہ کر بیٹھے
بڑھائے کیوں دل مضطر کا اضطرار لحاظ

شراب پی چکے بے چارہ کو اجازت دو
کھڑا ہے دیر سے رخصت کو اے نگار لحاظ

میں مدح سنج ہوں دل سے ترے تلون کا
نہ پائیدار ہے الفت نہ پائیدار لحاظ

بتاؤ تو یہ رہے گا وصال میں کب تک
ہمارے ہاتھ کے بدلے گلے کا ہار لحاظ

کریں جو آپ تجاہل تو کیوں نہ سمجھاؤں
کرے حضور کہاں تک وفا شعار لحاظ

وہ اپنے سر کو ذرا بھی اٹھا نہیں سکتے
جھکی ہوئی ہے جو گردن تو ہے سوار لحاظ

جو ان سے پوچھو تو ان کے خلاف ہے شوخی
جو ہم سے پوچھو تو ہم کو ہے ناگوار لحاظ

تکلف اٹھتے ہی پرویںؔ وہ خوب کھل کھیلے
ہوا ہے شوخیوں سے کتنا بے وقار لحاظ


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%81%D8%B2%D8%A7%D8%B1_%D8%B4%D8%B1%D9%85_%DA%A9%D8%B1%D9%88_%D9%88%D8%B5%D9%84_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%DB%81%D8%B2%D8%A7%D8%B1_%D9%84%D8%AD%D8%A7%D8%B8