ہزار پھول لیے موسم بہار آئے

ہزار پھول لیے موسم بہار آئے
by ثاقب لکھنوی

ہزار پھول لیے موسم بہار آئے
جو دل ہو سوکھ کے کانٹا تو کیا قرار آئے

جواب لے کے پھری شکر نزع کی ہچکی
وہ اب پکارتے ہیں ہم جنہیں پکار آئے

سلجھ سکیں نہ مری مشکلیں مگر دیکھا
الجھ گئے تھے جو گیسو انہیں سنوار آئے

فلک کو دیکھ کے ہنستے یہ گل تو اچھا تھا
جو ابر آئے وہ گلشن پہ اشک بار آئے

بہت سے یاد ہیں محفل میں بیٹھنے والے
کبھی تو بھول کے کوئی سر مزار آئے

ابھی ہے غنچۂ دل کی شگفتگی ممکن
ہزار بار اگر موسم بہار آئے

یہ بے مروتیاں دیکھیے کہ لب نہ ہلے
جو پاس تھے ہم انہیں دور تک پکار آئے

جواب مل تو گیا گو وہ دل شکن ہی سہی
یہی صدا مرے مالک پھر ایک بار آئے

اندھیری رات تھی اچھا کیا جو اے ثاقبؔ
چراغ لے کے سوئے ظلمت مزار آئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse