ہفت بند در مدح حضرت علیؓ

ہفت بند در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر
314948ہفت بند در مدح حضرت علیؓمیر تقی میر

بند اول

السلام اے رازدار داور جاں آفریں
السلام اے لامکاں کے حاکم مسندنشیں
ذات تیری جوں خدا کی ذات ہے والاصفات
بے شریک و بے عدیل و بے نظیر و بے قریں
یہ شرافت یہ سیادت یہ تقدس یہ کمال
یہ تنزہ یہ تعلی یہ تفوق ہے کہیں
تو ولی ہے تو وصی ہے تو علی ہے تو وہ ہے
جس سے بالاتر تصور کیجیے تو کچھ نہیں
کیا تعقل کیا تحمل کیا تبختر کیا وقار
طفل مکتب درس گہ کا تیرے عقل اولیں
سید برحق شریف النفس فخر روزگار
باعث عز سپہر و موجب وقر زمیں
پیشواے پیشوایاں سجدہ گاہ مومناں
زینت بطحا و یثرب رونق اسلام دیں
مظہر صدہا عجائب مصدر لطف و کرم
زیب منبر جانشین رحمۃ للعالمیں
مقصد دل آشنایاں مدعاے عاشقاں
آرزوے اہل عرفاں مطلب اہل یقیں
وارث دیں داور عادل شفیع روز حشر
حافظ عرش بریں و حامی شرع متیں
مالک ملک ولایت حاکم عالم پسند
بادشاہ صاحب استقلال امیرالمومنیں
عہد تیرا عدل ہے سب ملک ہے تیرا سرور
مجرم و اندوہ گیں ہوں ملتفت ہونا ضرور

بند دوم

اے مرے سرمایۂ دنیا و عقبیٰ لطف کر
اے مرے مولا مرے صاحب ادھر بھی کر نظر
لطف ترا مس سے میری کیمیاسازی کرے
مکرمت یک گونہ کر یہ خاک ہوجاتی ہے زر
رحم پر موقوف ہیں سب کام اس ناکام کے
نے مجھے کچھ مکر آوے ہے نہ مجھ میں کچھ ہنر
سر فرو لانے کو جی کب چاہتا ہے سب کے پاس
ہے دماغ بے دماغان محبت عرش پر
وقت جب آتا ہے خاص اے خاص رب العالمیں
میل کلی دل کا ہوتا ہے تری جانب مگر
تو نہ پہنچے داد کو تو ہائے کیا بیداد ہے
گوش زد تیرے نہ ہو فریاد تو ہے بے اثر
وقت خوش وہ تھا مسرت بخش کتنا خلق کا
دیکھنے کو بھی نہ آتی تھی میسر چشم تر
شاہد عدل آنکھ میلی گر کرے تو خوب رو
اپنی پلکوں سے سئیں عشاق کے زخم جگر
کیا بیاں اب کریے شرم آتی ہے عرض حال سے
قدر تیری ایسی والا حاجت اپنی کس قدر
اب تو وحشت ہے طبیعت میں بسان گردباد
خاک بر سر زندگانی کب تلک کریے بسر
آبیاری تیری یہ اور باغ سب سرسبز ہے
ایک شاخ آرزو اپنی نہیں لاتی ثمر
بارے بے برگی گراں ہے اور میں ہوں ناتواں
بے نسیم فیض تیرے اس چمن میں میں کہاں

بند سوم

اے شہ خوبی نسب والاحسب عالی تبار
جملہ تن عزت سراپا وقر و یکسر اعتبار
اللہ اللہ زور بازو قدر و قدرت دیدنی
ریجھنے کی جاے حشمت سیر قابل اقتدار
قدس کے باشندگاں کا ناز تیری ذات پر
نوع انساں کا تمامی تیرے اوپر افتخار
قلع خیبر مرگ اژدر کھینچنا خورشید کا
ہیں فسانے زور کے تیرے جہاں میں یادگار
جھک گئے گردن کشوں کے سر جہاں میں نے کہا
لافتیٰ الا علی لاسیف الا ذوالفقار
توکہے جاروب تھی میدان کیں کی تیری تیغ
جس کے نکلے نے خس و خاشاک نے گرد و غبار
تونے چھیڑا ہے اگر مرکب کو اپنے کہہ کے ہاں
تو ہوا ہے اس روش اس بادپیما کا گذار
جوں کوئی بجلی چمک جاتی ہے گاہے پیش چشم
پھر کھلے پر آنکھ کے رہ جاتے ہیں حیران کار
گوشۂ محراب میں راتوں کے تیں رونے سے کام
روز میداں سایۂ شمشیر میں ہنسنا شعار
کیا چھپی ہے کچھ یہ شخصیت جو میں ظاہر کروں
پر ترے اوصاف سے ہیں قریہ و شہر و دیار
ہے گہربخشی سے تیری ابر نیساں یک طرف
ہے کف ہمت کے آگے تیرے دریا یک کنار
مہرباں ہو یک نظر اس چشم نم کی اور دیکھ
دیکھ مت میری طرف اپنے کرم کی اور دیکھ

بند چہارم

کیا گدا کیا شاہ دونوں تیرے در سے کامیاب
سجدہ گاہ خلق و عالم ہے تری عالی جناب
کوئی بیگانہ تری تقلید کیوں کر کرسکے
تھا تو ایسا جب پیمبرؐ کی ہوا خویشی کا باب
حیف وہ بے تہ نہ رکھے جو کہ تیری دوستی
اک ولا کے ضمن میں تیری ہزاروں ہیں ثواب
عقل کا معقولہ تو ہے خلق کا مقبول تو
ذات تیری فرد اعلیٰ بات تیری یک کتاب
تجھ سے روے بحث کس کو غیر علام الغیوب
اس جگہ جبریل ساکت عقل اول لاجواب
جب کوئی ساقی کہیں تجھ سا بہشتی رو ملے
جن کو ہے کچھ ہوش وے تیرے بنیں مست و خراب
عنبریں گیسو ترے وا ہوں تو کھل جاتا ہے جی
مدعی کھاتے ہیں آپ ہی آپ یوں ہی پیچ و تاب
تو توقع کی جگہ سب کی تجھی سے چشم داشت
تو پناہ دہر و تو امیدگاہ شیخ و شاب
لطف بے پایاں ہے تیرا سایہ گستر خلق کا
ایک تابش اپنے ذرے پر بھی کر اے آفتاب
ہے جہاں تیری سخا واں بحر و بر کا کیا شمار
جب برسنے تو لگے گنتی میں آوے کب سحاب
شرح وسعت دامن دولت کی تیرے کیا کروں
بخش دے ہے جوہر تر پھینک دے ہے لعل ناب
تیری ہمت تیری جرأت تیری طاقت تیرا زور
تو ہی ریجھے توہی بوجھے توہی دیکھے اپنی اور

بند پنجم

اے بسان کعبہ تیرے طوف میں روحانیاں
نام تیرا حاملان عرش کا ورد زباں
جوش مارے فیض کا چشمہ ترا تو بحر ہے
زمزم و تسنیم پھر ہیں ایک دو چقر کہاں
آب شرم رشک سے تیرے ستارہ صبح کا
خاک تیرے آستانے کی جبین راستاں
کیا بلندی قدر کی اللہ کیا شان رفیع
جس جگہ تو ہے نہیں ہرگز رہ وہم و گماں
زور ایسا کاہے کو بالقوت انسان ہے
بے مزہ ہو تو ملا دیوے زمیں و آسماں
گرچہ عالم دیدہ حضرت خضر بھی ہیں آدمی
پر نہیں ہے ان کو مطلق یاں کی صحبت کا دھیاں
تجھ پہ ظل اللہ کا اطلاق شاہا راست ہے
چتر ہے خورشید تیرا چرخ تیرا سائباں
شیر ہونا تیرا کیا سمجھے بز اخفش ہے شیخ
قشعریرے میں سدا رہتا ہے یاں ببر ژیاں
بس طلسمات جہاں کے سب عیاں ہیں تجھ پہ راز
حاصل کون و مکاں تو واقف راز نہاں
نور سے تو ماہ کامل قدر سے چرخ بریں
حلم تیرا کوہ تیرا علم بحر بیکراں
کیا تسلط کیا تحمل کیا تمول کیا شکوہ
تو جہاں ہو ایک واں گویا کہ ہیں دونوں جہاں
یہ طرح پاتے ہیں تجھ میں سب رسول اللہؐ کی
شبہ ہے نام خدا تو اب رسول اللہؐ کی

بند ششم

اے چراغ جملہ نور خاندان مصطفےٰ
اے مرے والی مرے مقصود ہم نام خدا
ہے تو تو مخلوق لیکن عقل میں آتا نہیں
دیکھ کر اندیشہ تجھ کو عرش پر جاتا رہا
تو جہاں ہے اس جگہ کیا آسماں کی قدر ہے
قدر تیری ہے جہاں واں گفتگو کو قدر کیا
گاہ احمدؐ گہ احد گاہے علی پایا تجھے
ہر زماں میں ہر مکاں میں شان تھی تیری جدا
فرط عشق اپنے سے کیا حرف و سخن اے کام جاں
تو ہماری آرزو ہے تو ہمارا مدعا
مطلب اپنا مقصد اپنا حاصل اپنی زیست کا
عشق تیرا دوستی تیری فقط تیری ولا
تجھ سے ہم خواہان مطلب تجھ سے ہم جویاے کام
توہی یاں حاجت روا ہے تو ہی یاں مشکل کشا
تجھ سا حاکم تجھ سا داور تجھ سا یاور چھوڑ کر
کس سے کہیے کس کنے لے جایئے پھر التجا
تو ہے وارث تو ہے مالک تو ہے صاحب تجھ سے چشم
اپنے ہاں جو ہے سو تو اے شافع روز جزا
اعتقاد اپنا یہی یارب رہے ہنگام مرگ
ہوں زبان و دل موافق جس گھڑی پہنچے قضا
دم بہ دم ہونٹھوں کے اوپر یاعلی ہو یاعلی
ہے رضامندی تو اپنی اس میں آگے جو رضا
ہم یہی فردوس سمجھے ہیں اسی کے تیں نجات
رفتگان شوق سے بس اور کیا پوچھو ہو بات

بند ہفتم

اے امام واجب التعظیم و باب احترام
اے سزاے عزت و مسجود انبوہ انام
تیری قدر و منزلت ختم رسلؐ سے پوچھیے
تیری قدر و منزلت میں ہے کسی کو کیا کلام
تجھ رخ پرنور سے نسبت نہیں ہے بدر کو
شہرگرد ایسے بہت دیکھے ہیں پھرتے ناتمام
دے جہاں عرض تجمل حشمت و شوکت تری
قیصر و فغفور واں ہوں بندگی میں جوں غلام
جب تری زورآوری کی معرکے میں دھوم ہو
سام کو تب پوچھتا ہے کون رستم ہے کدام
تجھ سوا جور فلک کا کس سے بدلہ چاہیے
تو ملیک مقتدر ہے تو عزیز ذی انتقام
دست بستہ اقتدا ہم سے کسو کی کب ہوئی
تو ہی اپنا پیشوا ہے تو ہی اپنا پیش امام
گرچہ کہتا ہے زبان ہند میں یہ منقبت
لیک حسان عرب سے کم نہیں کچھ میرا نام
اس ادا سے گفتگو اس حسن سے طرز سخن
اس فصاحت سے عبارت اس بلاغت سے کلام
ہیں متاع نیک یاں اشعار مولاناحسن
یمن مدحت سے ترے پڑھتا ہے عالم صبح و شام
تو خریداری کرے ٹک بھی تو قیمت ہو دوچند
یعنی ہووے جنس کاسد کا قبول خاص و عام
سو خدا ناکردہ ہم چشمی نہیں کرتا فقیر
آرزو ہوتی نہیں ہے غیبت ایمان میرؔ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.