ہمارا ذکر دشمن کی زبانی دیکھتے جاؤ
ہمارا ذکر دشمن کی زبانی دیکھتے جاؤ
فسانہ بن گئی ساری کہانی دیکھتے جاؤ
ذرا اک چھیڑ دو زاہد سے قصے حور و غلماں کے
پھر اس کم بخت کی رنگیں بیانی دیکھتے جاؤ
ٹپک لے خون ارمانوں کا آنکھوں سے ذرا ٹھہرو
مری لٹتی ہوئی رنگیں جوانی دیکھتے جاؤ
کمال سوز غم ہائے نہانی ڈھونڈنے والو
مآل سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
بہت چرچے تھے یاروں میں مری جادو بیانی کے
حضور دوست میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |