ہماری عقل بے تدبیر پر تدبیر ہنستی ہے
ہماری عقل بے تدبیر پر تدبیر ہنستی ہے
اگر تدبیر ہم کرتے ہیں تو تقدیر ہنستی ہے
اسیروں کا نہیں کچھ شور و غل یہ آج زنداں میں
مرے دیوانہ پن کو دیکھ کر زنجیر ہنستی ہے
کبھو پہنچی نہ اس کے دل تلک رہ ہی میں تھک بیٹھی
بجا اس آہ بے تاثیر پر تاثیر ہنستی ہے
تو صورت اس کی کیا کھینچے گا اپنی دیکھ تو صورت
مصور اس تری تصویر پر تصویر ہنستی ہے
وہی ہے مرد جو ہو رو بہ رو تروار کے حاتمؔ
کہ منہ کے پھیرتے نامرد پر شمشیر ہنستی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |