ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے
ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے
تمہیں نے چاک کیا ہے تمہیں رفو کرتے
چمن میں آپ سے وہ کھل کے گفتگو کرتے
یہ منہ گلوں کا کہ دعوائے رنگ و بو کرتے
ملا کے آنکھ وہ ہم سے جو گفتگو کرتے
تو ہم بھی کھل کے ذرا شرح آرزو کرتے
ہمارے آئنۂ دل سے کوئی بحث نہ تھی
تم اپنے مد مقابل سے گفتگو کرتے
یہ بات ایسی تھی ہم منہ بھی چومتے جاتے
وہ پاس بیٹھ کے یوں شکوۂ عدو کرتے
خیال غیر سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا
ہمارے سامنے دامن اگر رفو کرتے
یہ لفظ وہ ہے معمہ کبھی نہ حل ہوتا
تمام عمر اگر شرح آرزو کرتے
تلاش یار میں مجھ سے بھی دو قدم آگے
نکل گئے ہیں مرے اشک جستجو کرتے
قیامت آئے نہ کیوں قبر پر سبو بر دوش
ازل کے مست اٹھے ہیں سبو سبو کرتے
گرے ہوئے تھے ہماری ہی آنکھ سے صفدرؔ
ان آنسوؤں کی وہ کیا خاک آبرو کرتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |