ہمیشہ سیر گل و لالہ زار باقی ہے
ہمیشہ سیر گل و لالہ زار باقی ہے
اگر بغل میں دل داغدار باقی ہے
طفیل روح مرا جسم زار باقی ہے
ہوا کے دم سے یہ مشت غبار باقی ہے
بغیر روح رواں جسم زار باقی ہے
نکل گئی ہے سواری غبار باقی ہے
بہار میں تجھے نالے سناؤں گا بلبل
اگر یہ زندگئ مستعار باقی ہے
کہوں گا یار سے اک روز ہاتھ پھیلا کے
مجھے بھی حسرت بوس و کنار باقی ہے
جہاں کو چشم حقیقت سے دیکھ او غافل
کھلی ہے آنکھ ابھی اختیار باقی ہے
امید ہے ہمیں فردا ہو یا پس فردا
ضرور ہوئے گی صحبت وہ یار باقی ہے
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |