ہمیں آمد میرؔ کل بھا گئی
ہمیں آمد میرؔ کل بھا گئی
طرح اس میں مجنوں کی سب پا گئی
کہاں کا غبار آہ دل میں یہ تھا
مری خاک بدلی سی سب چھا گئی
کیا پاس بلبل خزاں نے نہ کچھ
گل و برگ بے درد پھیلا گئی
ہوئی سامنے یوں تو ایک ایک کے
ہمیں سے وہ کچھ آنکھ شرما گئی
جگر منہ تک آتے نہیں بولتے
غرض ہم بھی کرتے ہیں کیا کیا گئی
نہ ہم رہ کوئی نا کسی سے گیا
مری لاش تا گور تنہا گئی
گھٹا شمع ساں کیوں نہ جاؤں چلا
طبع غم جگر کو مرے کھا گئی
کوئی رہنے والی ہے جان عزیز
گئی گر نہ امروز فردا گئی
کیے دست و پا گم جو میرؔ آ گیا
وفا پیشہ مجلس اسے پا گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |