ہمیں ناشاد نظر آتے ہیں دل شاد ہیں سب

ہمیں ناشاد نظر آتے ہیں دل شاد ہیں سب
by امداد علی بحر

ہمیں ناشاد نظر آتے ہیں دل شاد ہیں سب
ہمیں اس دور میں برباد ہیں آباد ہیں سبب

خاکساروں سے بھلا اتنی کدورت کیا ہے
ایک دامن کے جھٹکنے میں تو برباد ہیں سبب

شکوہ اب کیا ہے تجھے کہتے نہ تھے ہم اے دل
جن کے تلوار سے ابرو ہیں وہ جلاد ہیں سب

عقدے کھل جائیں گے اغیار کے رفتہ رفتہ
ہمیں زلفوں کے گرفتار ہیں آزاد ہیں سب

ان حسینوں میں برا کس کو کہوں کس کو بھلا
مجھے دیوانہ بنانے کو جو تیار ہیں سب

آستیں دیدۂ گریاں سے جدا ہو کیوں کر
نہیں بھولے کسی چتون کے مزے یاد ہیں سب

کس کے کاکل نہیں شانوں پہ کھلے رہتے ہے
دام بر دوش مرے واسطے صیاد ہیں سبب

کوئی سنتا نہیں فریاد کسی کے بلبل
کہنے کو جتنے ہیں گل گوش بے فریاد ہیں سب

دشت گردی ہی دوا مجھ کو اگر سودا ہے
خار جنگل کے نہیں نشتر فصاد ہیں سب

شمع روتی ہے تو اس بزم میں سر کٹتا ہے
دادرس کوئی نہیں بر سر بیداد ہیں سب

نہ تو رفتار برے اور نہ گفتار برے
جتنی اس شب میں ادائیں ہیں خدا داد ہیں سب

صدقے رخ پر ہوں کہ قربان قد زیبا پر
غیرت گل میں یہ بت غیرت شمشاد ہیں سب

نسبتاً فرق نہیں ایک ہیں ابنائے جہاں
ایک ہے ان کی اور اک باپ کی اولاد ہیں سب

اس کی دیوار سے سر پھوڑ رہے ہیں عاشق
رشک شیریں ہے وہ بت غیرت فرہاد ہیں سب

دل لگی کس سے کروں بحرؔ کہ جی چھوٹ گیا
مہر پیشہ نہیں کوئی ستم ایجاد ہیں سب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse