ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے

ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے
ہماری خوشی کب خدا چاہتا ہے

شب و روز رویا کریں خون آنکھیں
یہی تو وہ رنگ حنا چاہتا ہے

وہ کرتا ہے اپنے ہی جی میں برائی
کسی کا کوئی گر برا چاہتا ہے

دلا بیٹھ رہ رکھ کے دنداں جگر پر
توکل کا گر تو مزا چاہتا ہے

اسے آپ سے دھیان آنے کا تیرے
وہ گل تجھ کو باد صبا چاہتا ہے

مرے استخواں سے بھی ہے اس کو نفرت
مرے فاقہ کر کے ہما چاہتا ہے

نہیں خواہش اس کی کھلی ہم پہ اب تک
وہ کیا مانگتا ہے وہ کیا چاہتا ہے

مگر یہ کہ ان روزوں پھر مصحفیؔ کو
ترے غم میں سودا ہوا چاہتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse