ہمیں کہتی ہے دنیا زخم دل زخم جگر والے
ہمیں کہتی ہے دنیا زخم دل زخم جگر والے
ذرا تم بھی تو دیکھو ہم کو تم بھی ہو نظر والے
نظر آئیں گے نقش پا جہاں اس فتنہ گر والے
چلیں گے سر کے بل رستہ وہاں کے رہ گزر والے
ستم ایجادیوں کی شان میں بٹا نہ آ جائے
نہ کرنا بھول کر تم جور چرخ کینہ ور والے
جفا و جور گلچیں سے چمن ماتم کدہ سا ہے
پھڑکتے ہیں قفس کی طرح آزادی میں پر والے
الف سے تا بہ یا للہ افسانہ سنا دیجے
جناب موسئ عمراں وہی حیرت نگر والے
ہمیں معلوم ہے ہم مانتے ہیں ہم نے سیکھا ہے
دل آزردہ ہوا کرتے ہیں از حد چشم تر والے
کٹانے کو گلا آٹھوں پہر موجود رہتے ہیں
وہ دل والے جگر والے سہی ہم بھی ہیں سر والے
تماشا دیکھ کر دنیا کا سائلؔ کو ہوئی حیرت
کہ تکتے رہ گئے بد گوہروں کا منہ گہر والے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |