ہمیں یاد آوتی ہیں باتیں اس گل رو کی رہ رہ کے
ہمیں یاد آوتی ہیں باتیں اس گل رو کی رہ رہ کے
نہیں ہیں باغ میں مشتاق ہم بلبل کے چہ چہ کے
کرے گا قتل کس کو دیکھیے وہ تیغ زن یارو
چلا آتا ہے اپنے ہاتھ میں قبضے کو گہہ گہہ کے
نشا ایسا ہوا اس کی نگہ کا جو نہیں تھمتے
ہمارے اشک جاتے ہیں چلے چشموں سے بہہ بہہ کے
ہم اس کا مسکرانا یاد کر رو رو کے ہنستے ہیں
نہیں مشتاق اب بازار کے خندوں کے قہہ قہہ کے
سخن میں فخر اپنا بن کیے رہتا نہیں ناجیؔ
اسے سمجھائے حاتمؔ کس طرح اشعار کہہ کہہ کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |