ہم آہوان شب کا بھرم کھولتے رہے
ہم آہوان شب کا بھرم کھولتے رہے
میزان دلبری پہ انہیں تولتے رہے
عکس جمال یار بھی کیا تھا کہ دیر تک
آئینے قمریوں کی طرح بولتے رہے
کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف
جیسے کسی کا بند قبا کھولتے رہے
پوچھو نہ کچھ کہ ہم سے غزالان بزم شب
کس شہر دلبری کی زباں بولتے رہے
کل شب تھا ذکر حور بھی ذکر بتاں کے ساتھ
زہد و صفا ادھر سے ادھر ڈولتے رہے
اپنا بھی وزن کر نہ سکے لوگ اور ہم
روح ورائے روح کو بھی تولتے رہے
سرمایۂ ادب تھی ہماری غزل ظفرؔ
اشعار نغز تھے کہ گہر رولتے رہے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |