ہم اجل کے آنے پر بھی ترا انتظار کرتے

ہم اجل کے آنے پر بھی ترا انتظار کرتے
by رشید لکھنوی

ہم اجل کے آنے پر بھی ترا انتظار کرتے
کوئی وعدہ سچ جو ہوتا تو کچھ اعتبار کرتے

جو نہ صبر اور دم بھر ترے بے قرار کرتے
ابھی برق کا طریقہ فلک اختیار کرتے

اگر اتنی بات سنتے کہ ہے عشق میں مصیبت
کبھی ہم نہ تیری خاطر دل بے قرار کرتے

دل زار بے خبر تھا کیا قتل تو مزا کیا
یہ سپہ گری ہے پہلے اسے ہوشیار کرتے

یہی چاہتے ہیں اے جاں مٹے غم کہ جان جائے
ابھی موت اگر نہ آتی ترا انتظار کرتے

غم و درد و رنج سہہ کے تجھے دیتے ہم دل اپنا
انہیں بے وفائیوں پر ترا اعتبار کرتے

جو سفر کا وقت آیا نہ پکارے ساتھ والے
ابھی آنکھ لگ گئی تھی ہمیں ہوشیار کرتے

جو خلاف امید کے ہو تو شکستہ خاطری ہے
کئی ٹکڑے دل کے ہوتے جو تم ایک وار کرتے

وہ نہ آئے مر گئے ہم اگر آتے بھی تو کیا تھا
یہی جان صدقے کرتے یہی دل نثار کرتے

ہمیں جان دے کے مارا ہمیں دے کے دل مٹایا
نہ غم فراق ہوتا نہ خیال یار کرتے

وہ ادا تھی قتل گہہ میں کہ بیان سے ہے باہر
مرے دل پہ زخم پڑتا وہ کسی پہ وار کرتے

تری سمت کی توجہ نہ کبھی جہان فانی
جو ذرا ثبات پاتے تو کچھ اعتبار کرتے

خبر اس کی پہلے ہوتی کہ نہ آئے گا یہ ہم کو
تو رشیدؔ شعر کا فن نہ ہم اختیار کرتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse