ہم جوں چکور غش ہیں اجی ایک یار پر
ہم جوں چکور غش ہیں اجی ایک یار پر
بلبل کی طرح جی نہیں دیتے ہزار پر
گر جی میں کچھ نہیں ہے تو دیکھے ہے کیوں مجھے
انگلی کو پھیر پھیر کے تیغے کی دھار پر
پا بوس یار کی ہمیں حسرت ہے اے نسیم
آہستہ آئیو تو ہمارے مزار پر
رخسار پر نمود ہوا خط خبر بھی ہے
یعنی کمر کسی ہے خزاں نے بہار پر
رنگیںؔ تو لے کے بیٹھے ہیں اسباب عیش سب
آوے بشرط یار بھی اپنے قرار پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |