ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے

ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے
by امداد علی بحر

ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے
آشیانے میں پھول بھر رکھتے

ہم اگر عشق میں اثر رکھتے
امردوں کو غلام کر رکھتے

میرے دل کو سمجھتے عرش بریں
یہ ستارے اگر نظر رکھتے

کیا خبر تھی کہ دام ہے وہ زلف
ہم بھی فولاد کا جگر رکھتے

ساتھ رنگ چمن کے اڑ جاتے
آج ہم بھی جو بال و پر رکھتے

راہ دیتا جو اس کے آنے کی
زاغ کے آگے ہم جگر رکھتے

یار کی دونوں آنکھیں قاتل تھیں
اک نظر ہم کدھر کدھر رکھتے

بھید اپنا دیا نہ اس دل نے
ہم بھی کچھ اپنی فکر کر رکھتے

یہی شکوہ ہے بے وفاؤں سے
ہم نہ مرتے جو یہ خبر رکھتے

سنگ دل تجھ کو جانتے ہم اگر
صبر کی سل کلیجے پر رکھتے

گوندھتے وہ کھجور سے جوٹے آج
ہاتھ اپنے جو کچھ ہنر رکھتے

آنکھیں رو رو کے کیوں سجاتے ہو
بحرؔ آنسو نہیں اثر رکھتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse