ہم سے وارفتہ الفت ہیں بہت کم پیدا

ہم سے وارفتہ الفت ہیں بہت کم پیدا
by مرزا محمد تقی ہوسؔ

ہم سے وارفتہ الفت ہیں بہت کم پیدا
ہاتھ سے کھو نہ ہمیں ہوں گے نہ پھر ہم پیدا

التیام اس کا جو ہے لطف بتاں پر موقوف
زخم دل کا مرے ہوتا نہیں مرہم پیدا

بد نہ کہہ بد کو کہ صناع بد و نیک ہے ایک
خار و گل ہوتے ہیں اک شاخ سے باہم پیدا

نہیں ابرو ترے رخسار کے سجدے کے لیے
عکس انگشت شہادت نے کیا خم پیدا

میں بھی ہوں باعث ایجاد ہوسؔ اک شے کا
میری خاطر مرے خالق نے کیا غم پیدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse