ہم عشق سوا کم ہیں کسی نام سے واقف
ہم عشق سوا کم ہیں کسی نام سے واقف
نہ کفر کے محرم ہیں نہ اسلام سے واقف
تلقین کرے عرض تمنا ہمیں اس سے
محرم نہیں ہے اس بت خودکام سے واقف
وہ دور وصال آہ کدھر ہے کہ ہم اور وہ
دنیا میں نہ تھے نامہ و پیغام سے واقف
کیا پوچھو ہو ہم روش باغ و چمن کو
ہم تو رہے کنج قفس و دام سے واقف
شیرینیٔ بوسہ سے مذاق اس کا ہو پھر تلخ
عاشق جو ہوا لذت دشنام سے واقف
بد نام نہ کر عشق کو جا کام کر اپنا
ہے اہل ہوس تو نہیں اس کام سے واقف
آغاز محبت کے مزے نے کیا غافل
اب تک نہ تھے ہم اس کے بد انجام سے واقف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |